ساحل آن لائن - سچائی کا آیئنہ

Header
collapse
...
Home / ساحلی خبریں / ایودھیا فیصلے پر سابق جج جسٹس نریمن کی تنقید: سیکولرزم کے اصولوں کے خلاف قرار

ایودھیا فیصلے پر سابق جج جسٹس نریمن کی تنقید: سیکولرزم کے اصولوں کے خلاف قرار

Sun, 08 Dec 2024 11:14:12  SO Admin   S.O. News Service

نئی دہلی، 8/دسمبر (ایس او نیوز /ایجنسی) سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس آر ایف نریمن نے ایودھیا معاملے میں 2019 میں دیے گئے سپریم کورٹ کے فیصلے پر سخت تنقید کی ہے۔ انہوں نے اس فیصلے کو انصاف کے اصولوں اور سیکولرزم کے نظریے کے منافی قرار دیا۔ جسٹس نریمن نے کہا کہ ایودھیا مقدمے کا فیصلہ ملک میں عدالتی نظام اور سیکولر بنیادوں پر سوالیہ نشان کھڑا کرتا ہے۔ یہ خیالات انہوں نے سابق چیف جسٹس اے ایم احمدی کی یاد میں قائم احمدی فاؤنڈیشن کے افتتاحی لیکچر کے دوران پیش کیے۔ تاہم، انہوں نے اس فیصلے میں پلیسز آف ورشپ (خصوصی دفعات) ایکٹ 1991 کو برقرار رکھنے کو ایک مثبت پہلو قرار دیا۔ ان کے مطابق، اس ایکٹ کا سختی سے نفاذ ملک میں مذہبی تنازعات اور فرقہ وارانہ کشیدگی کو کم کرنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے اور مستقبل میں ایسے مسائل کے حل کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کرے گا۔

جسٹس نریمن نے سالوں پرانے تنازعہ سے متعلق عدالت کے ذریعہ پاس کیے گئے مختلف احکامات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’میری عاجزانہ رائے میں انصاف کا ایک بڑا مذاق یہ تھا کہ ان فیصلوں میں سیکولرزم کو اس کا حق نہیں دیا گیا۔‘‘ اس معاملہ میں 9 نومبر 2019 کو پانچ ججوں کی بنچ نے حتمی فیصلہ سنایا تھا۔ جسٹس نریمن نے مسجد کے انہدام کو غیر قانونی ماننے کے باوجود رام مندر کے لیے متنازعہ زمین دینے سے متعلق عدالت کی طرف سے دی گئی دلیل سے بھی اختلاف کیا۔

جسٹس نریمن نے ملک کے موجودہ صورتحال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’آج ہم دیکھتے ہیں کہ پورے ملک میں کشیدگی کا ماحول پیدا کرنے والے لوگ ابھر رہے ہیں۔ مسجدوں کے ساتھ ساتھ درگاہوں کے خلاف بھی جگہ جگہ مقدمے درج کیے جا رہے ہیں۔ میرے خیال میں یہ سب اقدام فرقہ وارانہ کشیدگی اور بدامنی کو جنم دے سکتا ہے اور یہ عبادت گاہوں سے متعلق آئین کے خلاف ہے۔‘‘ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’پلیسز آف ورشپ ایکٹ‘ کے حوالے سے جو فیصلہ سپریم کورٹ نے دیا تھا اسے تمام ضلعی کورٹ اور ہائی کورٹ میں پڑھا جانا چاہیے۔ تمام سماج دشمن عناصر کو کچلنے کا یہی واحد طریقہ ہے۔


Share: